واسطے  حضرت  مرادِ  نیک  نام      عشق  اپنا  دے  مجھے  رب  الانعام        اپنی  الفت  سے  عطا  کر  سوز  و  ساز       اپنے  عرفاں  کے  سکھا  راز  و  نیاز      فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہر  گھڑی  درکار  ہے         فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہو  تو    بیڑا  پار  ہے    

    

حضرت  محمد مراد علی خاں رحمتہ  اللہ  علیہ 

 حضرت سید عبدالرزاق گیلانی

رحمتہ اللہ علیہ

 

آپ  رحمتہ اللہ علیہ    کی ولادت باسعادت ۱۸ ذیقعد ۵۲۸ہجری میں بروز اتوار کو بغداد شریف میں ہوئی۔ آپ  رحمتہ اللہ علیہ    کا اسم گرامی عبدالرزاق  رحمتہ اللہ علیہ     کنیت ابوالفراح اور عبدالرحمن ہے۔ آپ  رحمتہ اللہ علیہ    کا لقب تاج الدین ہے۔ آپ  رحمتہ اللہ علیہ    حضرت غوث پاک  رحمتہ اللہ علیہ    کے پانچویں صاحبزادے ہیں۔ آپ  رحمتہ اللہ علیہ    کی تعلیم و تربیت حضرت غوث پاک سید عبدالقادر جیلانی  رحمتہ اللہ علیہ    نے کی۔ انہی سے آپ  رحمتہ اللہ علیہ    کو بیعت و خلافت کا عظیم شرف بھی حاصل تھا۔

آپ  رحمتہ اللہ علیہ    حافظ قرآن و حدیث تھے اور اپنی جلالیت علمی کی بنا پر عراق کے مفتی تھے۔ آپ  رحمتہ اللہ علیہ    میں انتہا درجہ کی تواضع  و انکساری تھی۔ آپ  رحمتہ اللہ علیہ    صبروشکر اور اخلاق حسنہ میں مشہور تھے۔ زہدوتقویٰ آپ  رحمتہ اللہ علیہ    کا طرہ امتیاز تھا۔ علم و فنون کے درس و تدریس کے علاوہ آپ  رحمتہ اللہ علیہ    اپنے وقت کے عظیم مناظر تھے۔ طلبا سے نہایت انس و محبت رکھتے تھے۔ غرض آپ  رحمتہ اللہ علیہ    کی ذات پاک جامع الکمالات تھی۔ آپ  رحمتہ اللہ علیہ    کی ذات سے بہت سے لوگوں کو فیض پہنچا اور کثیر تعداد میں لوگ، عالم و فاضل اور درویش آپ  رحمتہ اللہ علیہ    کی صحبت سے مستفید ہوئے۔

آپ  رحمتہ اللہ علیہ    ارشاد فرماتے ہیں کہ ایک دن میں اور میرے والد حضرت غوث پاک  رحمتہ اللہ علیہ    جمعہ کی نماز پڑھنے کے لئے باہر نکلے راستے پر دیکھا کہ خلیفہ وقت کے لئے ایک سپاہی جانوروں پر شراب لادے ہوئے جارہا ہے۔ حضرت غوث پاک  رحمتہ اللہ علیہ    کو کشف کے زریعے معلوم ہوگیا کہ ان میں شراب ہے۔ اس لئے سپاہیوں کو آواز دی  مگر سپاہیوں نے مارے خوف و ندامت کے رکنا مناسب نہ سمجھا۔ چنانچہ حضرت غوث پاک  رحمتہ اللہ علیہ    نے جانوروں سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ خدا کے حکم سے رک جاؤ۔ جانور فوراً کھڑے ہوگئے۔ سپاہیوں نے لاکھ کوشش کی لیکن جانور اپنی جگہ سے نہ ہلے اور سپاہیوں کو فوراً مرض قولنج نے پکڑ لیا جس کی وجہ سے وہ تڑپنے لگے اور فریاد کرنے لگے کہ ہم آئندہ ایسی حرکت نہیں کرینگے۔ آپ  رحمتہ اللہ علیہ    نے دعا فرمائی جس سے مرض قولنج دور ہوگیا اور شراب سرکہ میں تبدیل ہوگئی۔ جب یہ خبر خلیفہ وقت کو پہنچی تو وہ بھی شراب نوشی سے تائب ہوگیا۔

''بہجتہ الاسرار'' میں حضرت عبدالرزاق رحمتہ اللہ علیہ کے عشقِ حقیقی اور اعلیٰ ترین مراتبِ قربِ الٰہی کے بیان میں حضرت ابوزرعہ ظاہر بن محمد المقدس الداری  رحمتہ اللہ علیہ    کی ایک روایت مذکور ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ایک بار میں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ کی مجلسِ وعظ میں حاضر تھا۔ وعظ کے دوران آپ رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا ''میری مجلس میں ایسے لوگ بھی حاضر ہیں جو جبلِ قاف قدس کے پار رہتے ہیں اور جن کے قدم اس وقت ہوا میں ہیں۔ شدتِ شوقِ الٰہی سے ان کے جبّے اور ان کے سروں پر عشقِ الٰہی کے سلطانی تاج جل رہے ہیں''۔ اسوقت آپؓ کے بڑے فرزند عبدالرزاق قدس سرہٗ العزیز اس مجلس میں حاضرتھے اور آپؓ کی کرسئ وعظ کے بالکل پاس ہی آپؓ کے قدم مبارک کے قریب ہی بیٹھے تھے۔ جونہی حضرت عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ نے یہ کلام فرمایا حضرت عبدالرزاق رحمتہ اللہ علیہ نے سر اُٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا اور ایک لحظہ یونہی آسمان کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھتے رہے۔ یہاں تک کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ بے ہوش ہو گئے اور آپ  رحمتہ اللہ علیہ    کے جبّے اور دستار مبارک کو آگ لگ گئی۔ حضرت پیر دستگیر قدس سرہٗ العزیز نے کرسئ وعظ سے نیچے اتر کر اپنے ہاتھوں سے آگ بجھا کر فرمایا ''اے عبدالرزاق تم بھی ان میں سے ہی ہو''۔ ابو زرعہ  رحمتہ اللہ علیہ    فرماتے ہیں کہ مجلسِ وعظ ختم ہونے کے بعد میں نے پیر عبدالرزاق قدس سرہٗ سے اس معاملے کی حقیقت اور ان کی کیفیت کے متعلق پوچھا تو آپ  رحمتہ اللہ علیہ    نے فرمایا کہ جب میں نے آسمان کی طرف دیکھا تو میں نے فضا میں چند روحانی اور نورانی لوگوں کو دیکھا کہ شوقِ الٰہی سے ان کے جُبّے اور تاج شعلہ بار ہیں اور وہ ہوا میں اِدھر اُدھر چکر لگاتے تھے اور رقص کرتے تھے اور درد و محبتِ الٰہی سے بادلوں کی طرح گرجتے تھے۔ ان کے دیکھنے سے میری بھی وہی حالت ہو گئی''۔

حضرت سید عبدالرزاق  رحمتہ اللہ علیہ    اپنے وقت کے قادر الکلام ادیب اور انشاءپرداز تھے۔ آپ  رحمتہ اللہ علیہ    کی جملہ تصانیف کا تذکرہ اکثر تذکروں میں نہیں ملتا۔ صرف ایک کتاب کا ثبوت تاریخ سے ملتا ہے جس کا نام جلالا الخواطر ہے۔ اس میں آپ  رحمتہ اللہ علیہ    نے اپنے والد ماجد حضرت غوث پاک  رحمتہ اللہ علیہ    کے معمولات زندگی اور ملفوظات درج کیے ہیں۔

آپ  رحمتہ اللہ علیہ    کے پانچ صاحبزادے اور دو صاحبزادیاں تھیں۔ آپ  رحمتہ اللہ علیہ    کے پانچویں یعنی سب سے چھوٹے صاحبزادے جن کا نام حضرت سید جمال اللہ  رحمتہ اللہ علیہ    ہے ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ حو با حو حضرت غوث پاک  رحمتہ اللہ علیہ    کے مشابہ تھے اور حضرت غوث پاک  رحمتہ اللہ علیہ    اپنے اس پوتے سے بے پناہ الفت و محبت کا اظہار فرماتے تھے اور قلبی محبت رکھتے تھے۔ اس لئے غوث  رحمتہ اللہ علیہ    نے آپ  رحمتہ اللہ علیہ    کو درازی عمر کی دعا فرمائی۔ کہتے ہیں کہ حضرت سید جمال اللہ آج بھی زندہ ہیں اور حیات المیر کے نام سے مشہور ہیں۔

آپ  رحمتہ اللہ علیہ    کے بے شمار خلفا تھے۔ چند مشہور خلفا کے اسم گرامی یہ ہیں۔ حضرت شرف الدین قتال  رحمتہ اللہ علیہ    ، حضرت سید ابو صالح نثر  رحمتہ اللہ علیہ     اور حضرت سید شیخ جمال اللہ  رحمتہ اللہ علیہ   ۔

حضرت سید عبدالرزاق  رحمتہ اللہ علیہ    ۶ شوال المکرم ۶۲۳ہجری کو اس دارفانی سے رخصت ہوئے۔ جب آپ  رحمتہ اللہ علیہ    کی نماز جنازہ کا اعلان ہو ا  تو کہتے ہیں کہ لوگوں کا اس قدر ہجوم ہوگیا کہ سارے لوگ جنازے میں شریک نہ ہوسکتے تھے اس لئے پہلی بار آپ  رحمتہ اللہ علیہ    کی نماز جنازہ عیدگاہ میں بغداد شہر کے باہر ہوئی۔ دوسری بار جامع رصافہ تیسری بار تربتہ الخلفا چھوتی بار دریائے دجلہ کے کنارے خزرین کے پاس پانچویں بار بابائے تحریم میں چھٹی بار جبریہ میں اور ساتوٰیں بار حضرت امام احمد بن حنبل  رحمتہ اللہ علیہ    کے مقبرہ کے پاس ہوئی۔

آپ  رحمتہ اللہ علیہ    کا مزار اقدس حضرت امام احمد بن حنبل  رحمتہ اللہ علیہ    کے مقبرہ بغداد شریف میں دریائے دجلہ کے کنارے تھا۔ دریائے دجلہ کی طغیانی اور کٹاؤ کی وجہ سے اب یہ دونوں مزار ناپید ہوچکے ہیں۔ جس وقت داراشکوہ  رحمتہ اللہ علیہ    نے سفینتہ اولیا لکھی اس وقت آپ  رحمتہ اللہ علیہ    کا مزار ٹھیک حالت میں تھا اور اس کا تذکرہ دارا شکوہ  رحمتہ اللہ علیہ    نے ان الفاظ میں کیا ہے کہ آپ  رحمتہ اللہ علیہ    کا مزار شریف بغداد میں ہے۔